دروازے کے اُس پار

رات کے دو بج رہے تھے۔ پورے محلے میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ میں گھر میں اکیلی تھی، کیونکہ میرے شوہر کو اچانک کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑا تھا۔ میری نیند معمول کے مطابق ٹوٹ گئی تھی، شاید کسی انجانی بے چینی کے باعث۔ کچن سے پانی پی کر جیسے ہی بیڈ پر واپس آئی، اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔

پہلے تو میں سمجھی شاید وہم ہے، مگر کچھ لمحوں بعد دستک زور سے ہوئی۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکنے کی کوشش کی، مگر اندھیرے میں کچھ دکھائی نہ دیا۔ موبائل اٹھا کر دروازے کے کیمرے سے دیکھا تو وہاں ایک سایہ کھڑا تھا — ایک مرد، جس کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

میرے ہاتھ کانپنے لگے۔ دماغ میں کئی خدشات گردش کرنے لگے: کوئی چور؟ کوئی پاگل؟ یا شاید کسی مدد کی ضرورت ہو؟

میں نے ہمت کر کے اندر سے آواز دی:
“کون ہے؟”

جواب آیا: “باجی، معاف کرنا، میری گاڑی خراب ہو گئی ہے، فون بند ہو گیا ہے، کیا میں آپ کا فون استعمال کر سکتا ہوں؟ بس ایک کال کرنی ہے۔”

آواز میں گھبراہٹ اور تھکن تھی، لیکن رات کے اس پہر کسی اجنبی کو دروازہ کھولنا… ایک عجیب کشمکش میں تھی۔ پھر دل نے کہا: اگر یہ سچ کہہ رہا ہے تو؟ اگر واقعی اسے مدد کی ضرورت ہے؟

میں نے دروازہ مکمل کھولنے کے بجائے، زنجیر لگی حالت میں تھوڑا سا کھولا اور ہاتھ میں فون پکڑا کر کہا: “یہ لیں، فون کریں۔”

اس نے فون لیا اور کسی کو کال کی، آواز دھیمی تھی لیکن وہ بار بار کہہ رہا تھا، “بھائی جلدی آ جاؤ، بہت ڈر لگ رہا ہے، یہاں کوئی خاتون رہتی ہیں، ان کا بہت شکریہ ادا کرنا ہے۔”

اس کا انداز بدلا ہوا سا لگا، جیسے وہ واقعی کسی مشکل میں تھا۔

تھوڑی دیر میں ایک اور گاڑی آئی، اور ایک عمر رسیدہ شخص اترا۔ انہوں نے مجھے سلام کیا اور بتایا کہ یہ لڑکا ان کا چھوٹا بھائی ہے، جو ذہنی دباؤ کا شکار ہے اور اکثر ایسی حالت میں نکل جاتا ہے۔

“آپ کا بہت شکریہ، بی بی جی۔ اللہ آپ کو جزا دے۔ اگر آپ دروازہ نہ کھولتیں تو پتہ نہیں یہ کہاں چلا جاتا۔”

میں نے سکون کا سانس لیا، دروازہ بند کیا، اور اندر آ کر کافی دیر تک سوچتی رہی۔ آج ایک فیصلہ لمحوں میں کرنا تھا: خوف پر قابو پا کر انسانیت دکھانا، یا ڈر کے مارے نظرانداز کرنا۔

:نتیجہ

یہ دنیا اندھیرے اور خوف سے بھری ضرور ہے، لیکن کہیں نہ کہیں روشنی بھی ہے۔ ہر اجنبی خطرہ نہیں ہوتا، اور ہر دروازہ جو کھلتا ہے، وہ مصیبت کا در نہیں — کبھی کبھی وہ کسی کی زندگی بچانے کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔

:ڈسکلیمر

یہ کہانی مکمل طور پر مصنف کی تخلیقی سوچ کا نتیجہ ہے اور صرف معلوماتی مقصد کے لیے پیش کی گئی ہے۔ اس میں بیان کردہ تمام کردار، مقامات اور واقعات فرضی ہیں۔ اگر کسی شخصیت، مقام یا واقعے سے کوئی مشابہت محسوس ہو تو وہ محض اتفاقیہ ہوگی۔ اس کہانی کا مقصد کسی فرد، گروہ یا ادارے کی دل آزاری یا حقیقت سے تعلق قائم کرنا ہرگز نہیں ہے

Leave a Comment