کہانی: اکیلا پن اور ایک نئی شروعات

میری عمر تیس سال ہو چکی تھی، اور اب تک میری شادی نہیں ہوئی تھی۔ میرے ارد گرد کے تقریباً تمام رشتے دار، دوست، حتیٰ کہ ہم عمر کزن بھی اپنی نئی زندگیاں شروع کر چکے تھے۔ ہر تقریب، ہر محفل میں یہی سوال سننے کو ملتا

“اب تمہاری شادی کب ہو رہی ہے؟”

شروع میں میں مسکرا کر ٹال دیتی، پھر دل چھوٹنے لگا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میں نے دعوتوں میں جانا چھوڑ دیا۔ دفتر سے آ کر بس کمرے میں بند ہو جاتی۔ میری ماں کبھی کبھی دھیمی آواز میں کہتیں

“بیٹا، ہمیں تمہاری فکر ہے۔”

ایک دن ایسا ہی تھا۔ چھٹی کا دن، گھر میں مکمل خاموشی تھی۔ میں صوفے پر بیٹھی اپنی پرانی تصویریں دیکھ رہی تھی جب مجھے بچپن کے دن یاد آ گئے۔ مجھے یاد آیا کہ میرا چھوٹا کزن زبیر، جو بچپن میں میرے ساتھ بہت وقت گزارتا تھا، اب کالج میں ہے اور اکثر میرے پیغامات کا جواب دیتا ہے۔ میں نے اسے میسج کیا

“فارغ ہو؟ آؤ چائے پیو میرے ساتھ۔”

کچھ دیر بعد وہ آیا، خوش اخلاق، ہنستا مسکراتا۔ اس نے میری بنائی چائے کو سراہا اور ہم دونوں پرانی باتیں کرنے لگے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ اب بچہ نہیں رہا، ایک سلجھا ہوا نوجوان بن چکا ہے۔ اس کی باتوں میں اعتماد تھا، اور دل میں اپنائیت۔

میں نے ہلکے پھلکے انداز میں اسے پوچھا، “تم کبھی اکیلے پن کا شکار ہوتے ہو؟”

اس نے مسکرا کر جواب دیا، “اکیلا پن عمر سے نہیں آتا۔ دل کا تعلق اگر کہیں نہ ہو، تو انسان لوگوں کے ہجوم میں بھی اکیلا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی سننے والا ہو، سمجھنے والا ہو، تو زندگی بدل جاتی ہے۔”

اس دن کے بعد میری زندگی میں ایک بدلاؤ آیا۔ میں نے تنہائی کو ختم کرنے کا عزم کیا۔ زبیر میرے لیے کوئی رومانوی دلچسپی نہیں تھا، لیکن اس نے مجھے یاد دلایا کہ زندگی صرف شادی پر ختم نہیں ہوتی۔ میں نے خود کو مصروف کیا — پرانے مشغلے دوبارہ شروع کیے، ایک چھوٹا سا آن لائن کاروبار شروع کیا، اور خواتین کی رہنمائی کے لیے یوٹیوب چینل بنایا۔

رفتہ رفتہ، میرے آس پاس لوگ بدلنے لگے۔ وہی رشتے دار جنھوں نے شادی نہ ہونے پر مجھے ترسا ہوا سمجھا، اب میرے حوصلے کی داد دیتے تھے۔ اور ایک دن، ایک انٹرویو کے دوران میری ملاقات ایک شخص سے ہوئی جو میری باتوں سے متاثر ہوا۔ وہ خود بھی دیر سے شادی کرنے کے حق میں تھا اور زندگی کو سمجھنے والا انسان تھا۔

ہم نے بات چیت شروع کی، دوستی ہوئی، اور چند مہینوں بعد ہم نے شادی کر لی — لیکن صرف اس لیے نہیں کہ عمر ہو چکی تھی، بلکہ اس لیے کہ اب میں خود کو مکمل سمجھتی تھی۔

:نتیجہ

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کا ہر مرحلہ اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ شادی زندگی کا مقصد نہیں، ایک حصہ ہے۔ اصل کامیابی تب ہوتی ہے جب انسان خود کو قبول کر لے، خود کو سنوارے، اور اپنی کہانی کو اپنے انداز سے لکھے۔ تنہائی کے لمحے ہمیں سوچنے کا موقع دیتے ہیں — اور جب ہم خود سے دوستی کر لیتے ہیں، تو دنیا بھی ہمیں اپنانے لگتی ..

:ڈسکلیمر

یہ کہانی مکمل طور پر مصنف کی تخلیقی سوچ کا نتیجہ ہے اور صرف معلوماتی مقصد کے لیے پیش کی گئی ہے۔ اس میں بیان کردہ تمام کردار، مقامات اور واقعات فرضی ہیں۔ اگر کسی شخصیت، مقام یا واقعے سے کوئی مشابہت محسوس ہو تو وہ محض اتفاقیہ ہوگی۔ اس کہانی کا مقصد کسی فرد، گروہ یا ادارے کی دل آزاری یا حقیقت سے تعلق قائم کرنا ہرگز نہیں ہے

Leave a Comment