تنہائی کے دریچے
میرا گھر والا سعودیہ میں رہتا ہے 2 سال بعد گھر آتا ہے اکیلی بور رہتی ہوں اگر کوئی بندہ جو مجھے۔۔۔
:کردار
ثنا: ایک 27 سالہ خاتون، تعلیم یافتہ، باہمت، مگر شوہر کی غیر موجودگی میں تنہائی کا شکار۔
فراز: ایک نیا کرایہ دار، نرم دل، سمجھدار، مگر خود بھی زندگی کی تلخیوں سے گزرا ہوا۔
شہباز: ثنا کا شوہر، سعودی عرب میں ملازمت کرتا ہے، محنتی مگر مصروف۔
:ابتداء
ثنا کی شادی کو پانچ سال ہو چکے تھے۔ اس کا شوہر، شہباز، ایک محنتی انسان تھا جو بہتر مستقبل کے لیے سعودی عرب میں ملازمت کرتا تھا۔ ہر دو سال بعد صرف دو ماہ کے لیے آتا، اور پھر کام پر واپس چلا جاتا۔
شروع شروع میں تو سب کچھ نیا تھا، دل لگا رہتا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ ثنا کو تنہائی نے گھیر لیا۔ سارا دن خالی گھر، ٹی وی کی بے مقصد آواز، اور موبائل کی اسکرین پر گھڑی گھڑی آن لائن آنے کی عادت بن گئی۔ ماں باپ کی دعاؤں کے باوجود، دل میں ایک خلا سا رہنے لگا تھا۔
:نیا موڑ
ایک دن، گھر کے اوپر والے حصے میں نیا کرایہ دار آیا۔ نام تھا فراز۔ وہ ایک یونیورسٹی میں لیکچرار تھا۔ سنجیدہ، شائستہ اور ادب پسند۔ آتے ہی اس نے نیچے آ کر ثنا سے پانی مانگا۔ وہ بہت مہذب انداز میں بولا:
“معاف کیجیے گا، ابھی سامان رکھوایا ہے، پانی اگر مل جائے تو مہربانی ہوگی۔”
ثنا نے شیشے کے جگ میں پانی دے دیا۔ اس دن ایک اجنبی کے ساتھ چند لمحے بات کر کے اسے کچھ عجب سی راحت محسوس ہوئی۔
:رفتہ رفتہ قربت
ہفتے دو ہفتے میں سلام دعا ہونے لگی۔ دونوں ادب اور کتابوں سے محبت رکھتے تھے۔ گاہے بگاہے جب ثنا صحن میں پودوں کو پانی دے رہی ہوتی، فراز کتاب پڑھتے ہوئے کبھی کوئی شعر سنا دیتا۔ ثنا کے دل میں خوشی کی ایک چنگاری جلتی، مگر وہ خود بھی اس احساس سے خوفزدہ تھی۔
“یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ غلط ہے؟ یا بس ایک سادہ انسان کی گفتگو ہے؟” ثنا خود سے سوال کرتی۔
:ایک دن، فراز نے کہا
“آپ ایک باشعور خاتون ہیں، آپ کی باتوں میں وقار ہے۔ آپ سے مل کر ہمیشہ اچھا محسوس ہوتا ہے۔”
یہ جملہ ثنا کے دل میں کچھ ہلچل کر گیا۔ مگر وہ جانتی تھی، اس کا دل ابھی بندھن میں ہے۔ شوہر چاہے دور ہے، مگر اس کا رشتہ زندہ ہے۔
:آزمائش کا لمحہ
:ایک دن فراز نے ثنا سے کہا
“میں اکیلا ہوں، دل چاہتا ہے کہ کوئی ہو جس سے زندگی کے لمحے بانٹ سکوں۔ آپ کو دیکھ کر لگتا ہے آپ وہی ذات ہیں۔”
یہ سن کر ثنا کی دنیا جیسے تھم گئی۔ لمحے بھر کو دل نے چاہا سب چھوڑ دے، مگر اگلے ہی پل، اس نے خود کو آئینے میں دیکھا۔ وہ ثنا جو مضبوط تھی، وفادار تھی، وہ ایسی نہیں بن سکتی تھی۔
:وہ بولی
فراز صاحب، آپ ایک اچھے انسان ہیں۔ مگر میں ایک بیوی ہوں۔ اور بیوی کا فرض صرف جسمانی نہیں، بلکہ جذباتی وفاداری بھی ہے۔ میں نے ایک بار نکاح کا وعدہ کیا ہے، اور وہی میرے لیے کافی ہے۔
:فراز نے سر جھکا لیا اور احترام سے کہا
“آپ نے میرے دل میں عزت اور بڑھا دی۔ آپ جیسی عورت کا احترام نہ کرنا، میرے لیے گناہ ہوتا۔”
:انجام
کچھ دن بعد، فراز نے گھر چھوڑ دیا۔ جاتے جاتے اس نے ایک خط چھوڑا جس میں لکھا تھا
“میں جا رہا ہوں، مگر آپ سے بہت کچھ سیکھا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کے شوہر جلد واپس آئیں اور آپ کو وہ وقت دیں جس کی آپ حقدار ہیں۔ آپ ایک عظیم عورت ہیں۔”
مہینے بعد شہباز واپس آیا، اور اس بار وہ ثنا کو ساتھ لے گیا۔ سعودی عرب کے ویزا قانون میں تبدیلی آئی تھی اور وہ اب خاندان کو بھی ساتھ رکھ سکتا تھا۔
ثنا جب ہوائی جہاز میں بیٹھی، اس نے ایک بار کھڑکی سے نیچے دیکھا۔ نیچے وہی گلی، وہی درخت، وہی چھتیں تھیں جہاں اس کی تنہائی نے اس کا امتحان لیا تھا — اور وہ کامیاب ہوئی تھی۔
:نتیجہ
اس کہانی کا پیغام یہ ہے کہ تنہائی ایک خطرناک کیفیت ہو سکتی ہے، مگر اگر انسان اپنے اصولوں اور وفاداری پر قائم رہے تو وہ نہ صرف خود کو، بلکہ دوسروں کو بھی بہتر انسان بننے کی راہ دکھا سکتا ہے۔ محبت صرف پانا نہیں، خود پر قابو پانا بھی ہے۔
:ڈسکلیمر
یہ کہانی مکمل طور پر مصنف کی تخلیقی سوچ کا نتیجہ ہے اور صرف معلوماتی مقصد کے لیے پیش کی گئی ہے۔ اس میں بیان کردہ تمام کردار، مقامات اور واقعات فرضی ہیں۔ اگر کسی شخصیت، مقام یا واقعے سے کوئی مشابہت محسوس ہو تو وہ محض اتفاقیہ ہوگی۔ اس کہانی کا مقصد کسی فرد، گروہ یا ادارے کی دل آزاری یا حقیقت سے تعلق قائم کرنا ہرگز نہیں ہے